انصار عباسی کا خصوصی تبصرہ

انصار عباسی کا خصوصی تبصرہ

اسلام آباد (ویب ڈیسک) نامور صحافی انصار عباسی اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ منگل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں پی ٹی آئی اور اس کی سینئر قیادت کو نقصان پہنچانے کے تمام تر اجزاء شامل ہیں۔ اب زیادہ تر انحصار حکومت پر ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف کتنی سختی کے ساتھ کارروائی کرنا چاہے گی۔ تاہم، عمران خان اور ان کی پارٹی کی قسمت کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔ اگر حکومت غیر متزلزل رہی تو الیکشن کمیشن کا مقدمہ پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین پر تلوار کی طرح لٹکتا رہے گا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہے اور اس کی وجہ سے پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کیخلاف کئی دیگر آئینی، فوجداری اور دیوانی نوعیت کے مقدمات کھل سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے فیصلے سے سیاسی اور قانونی حلقوں میں جن ممکنہ کیسز کے اندراج پر بحث ہو رہی ہے ان میں ممنوعہ فنڈز کی ضبطی، انتخابی نشان واپس لیے جانے، پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان کی نااہلیت جیسے نتائج شامل ہیں۔ تاہم، ان کیسز کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی قیادت کیخلاف فوجداری نوعیت کے مقدمات بھی درج ہو سکتے ہیں جن میں منی لانڈرنگ، نامعلوم بینک اکائونٹس رکھنے اور دشمن ملک کے شہریوں سے پیسے لینے وغیرہ جیسے مقدمات شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، نیب اور پولیس کو بھی ان کیسز کی تحقیقات کیلئے کہا جا سکتا ہے۔ تاہم، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں عمران خان کیخلاف جو بات زیادہ سنگین ہے وہ انہیں نااہل قرار دلا سکتی ہے اور یہ بات فیصلے کے پیرا نمبر (k)50 میں لکھی ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین 2008-09ء سے 2؍ دسمبر 2013ء (پانچ سال تک) فارم ون جمع کراتے رہے اور الیکشن کمیشن نے جب اسٹیٹ بینک سے مالی گوشوارے (فنانشل اسٹیٹمنٹ) حاصل کرے دیگر دستیاب ریکارڈ کے ساتھ ان فارمز کو پرکھا تو معلوم ہوا کہ اس فارم میں بڑے پیمانے پر غلطیاں تھیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ہر سرٹیفکیٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان کے قانون کے مطابق کام کر رہی ہے اور آئین کے آرٹیکل (3)17 کے مطابق اپنے فنڈز کے ذرائع اور اکائونٹس کا ڈکلیریشن پیش کرتی ہے۔ اس پیرا میں مزید لکھا ہے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ اور اس کا چیئرمین ہونے کی حیثیت سے عمران خان پابند تھے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی جانے والی دستاویزات سختی کے ساتھ قانون کے مطابق ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق دیکھا جائے تو عمران خان پاکستان کے قوانین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام ہوئے ہیں۔ فیصلے کو دیکھا جائے تو اس میں عمران خان کو نقصان پہنچانے کا ایک اور پہلو بھی موجود ہے۔ فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ دو اکائونٹس ایسے ہیں جو کھولے گئے تو عمران خان کی درخواست پر تھے لیکن الیکشن کمیشن کو ان اکائونٹس کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ ایک اکائونٹ ڈالر اکائونٹ تھا جو حبیب بینک لمیٹڈ اسلام آباد میں کھولا گیا جس کا ٹائٹل پی ٹی آئی تھا۔ اس اکائونٹ سے 51؍ ہزار 750؍ ڈالرز نکلوائے گئے جبکہ 51؍ ہزار 750؍ ڈالرز اسی اکائونٹ میں جمع کرائے گئے تھے۔ دوسرا اکائونٹ پاکستانی کرنسی میں ایچ بی ایل اسلام آباد سوک سینٹر برانچ میں عمران خان کی ہی درخواست پر کھولا گیا تھا۔ اس اکائونٹ سے 84.141؍ ملین نکلوائے گئے جبکہ 86.890؍ ملین جمع کرائے گئے تھے۔عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے جو بات پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عمران خان نے جانتے ہوئے اور مرضی سے غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی شخصیات سے ڈونیشن وصول کیا اور یہ پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے کہ بتائیں کہ پارٹی کے ممنوعہ فنڈز ضبط کیوں نہ کر لیے جائیں۔ فنڈز کی یہ ضبطی الیکشن کمیشن کے دائرۂ کار میں آتی ہے۔ پی ٹی آئی کو تحلیل کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے اور وہ سپریم کورٹ میں فیصلے کیلئے ’’غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی پارٹی‘‘ کو تحلیل کا کیس دائر کر سکتی ہے۔ عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا سپریم کورٹ کر سکتی ہے۔ کوئی بھی نجی درخواست گزار یا پھر حکومت خود الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پی ٹی آئی کیخلاف فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے عمران خان کی نا اہلی کی درخواست دے سکتے ہے۔

Sharing is caring!

Categories
Fifa 2022 Highlights

Comments are closed.