
عدلیہ کی تاریخ کا انوکھا واقعہ
نہ پولیس والے ثابت کر سکے اور نہ وکیل کوئی ثبوت پیش کر سکا مگر میانوالی کے ایک جج نے کیسے بری ہوتے مجرم کو تختہ دار پر پہنچا دیا ؟ عدلیہ کی تاریخ کا انوکھا واقعہ
سینئر کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیا ہمارے ہاں بھی ایسے جج ہیں؟اس کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟؟ہاں کم ہی سہی ضرور ہیں۔اگر ہر جج ایسا ہوجائے تومعاشرہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔آگے چلنے سے قبل یہ واقعہ ایک پرانا واقعہ ہے تختہ دار کی سزا پانیوالا ایک مجرم اپنے جرم سے عدالت میں انکار کر دیتا ہے ’’،کوئی گواہ بھی نہیں ہے‘ اسے چھوڑ دو‘‘ جج صاحب کے اس حکم پر بھری عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ پولیس والوں نے ملزم کی ہتھکڑی کھول دی۔ وہ اب آزاد تھا۔ اس نے جج صاحب کو سلام کیا اور الٹے پائوں کمرہ عدالت سے نکلنے کیلئے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ دروازرے تک ابھی پہنچا نہیںتھا کہ جج صاحب کی آواز آئی۔ ’’ٹھہرو‘ ذرا واپس آئو‘‘ نوجوان واپس آیا تو جج نے ایک سائیڈ پر پڑے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جس پر چند چھریاں رکھی تھیں۔ جج صاحب نے کہا ان میں سے اپنی چھری پہچان کر لے جاؤ۔واقعہ میانوالی کا ہے۔ جج عبدالمجید ٹوانہ تھے جو بعد میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بنے۔ واقعہ سربازار ہوا تھا۔ ملزم پارٹی طاقتور تھی۔خوف سے گواہی پر تیار نہیں تھا۔ جج صاحب گواہیوں کیمطابق فیصلہ کرنے پر مجبور تھے۔ جج صاحب معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے بھیس بدل کر وقوعہ کے علاقے میں گئے۔ ان کو یقین ہو گیا کہ مجرم یہی نوجوان ہے۔ اگلی پیشی پر ٹوانہ صاحب نے اسے چھوڑنے کو کہا۔ اعتراف جرم کرانے کا ایک طریقہ یا Tact تھا۔ کم فہم نوجوان نے پانچ چھ میں سے اپنی چھری اٹھا لی۔ اعتراف جرم کیلئے یہی کافی تھا۔ اسے سیشن کورٹ نے تختہ دار پر چڑھانے کی سزا سنائی۔ جج صاحب نے فیصلے میں سارا واقعہ تحریر کر دیا جس کی بنا پر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے سزا بحال رکھی اور بااثر و طاقتور شخص کو اسکے انجام (تختہ دار ) پر پہنچا دیا گیا ۔