
پہلے راشن 10 ہزار میں آتا تھا اب 20 ہزار میں آتا ہے
پہلے راشن 10 ہزار میں آتا تھا اب 20 ہزار میں آتا ہے… مہنگائی کس طرح پاکستانی عوام کو متاثر کر رہی ہے؟
پاکستانی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح پچاس سال کی بلند ترین سطح یعنی 27.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ کم آمدنی والے افراد کے ذرائع آمدن نصف ہو گئے ہیں جبکہ غور طلب پہلو یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہائش پزیر متوس طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد نعمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی مں کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ 40 ہزار روپے ماہانہ ہے، جب کہ ان کی اہلیہ ایک اسکول میں بطور پرائمری ٹیچر کام کر تی ہیں۔ ان کی تنخواہ27ہزار روپے ہے۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے مگر مہنگائی کا حالیہ طوفان ان پر قہر بن کر ٹوٹا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء جن پر کبھی 10ہزار روپے خرچ ہوتا تھا یہ خرچ اب 20ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ آفس جانے کے اخراجات، بجلی گیس کے بل بھی 15ہزار سے بڑھ 22ہزار تک پہنچ گئے ہیں۔ ادویات، بچوں کے تعلیمی اخراجات ، روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ مالک مکان نے کرایہ بڑھانے کا نوٹس دے رکھا ہے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اب ان کی اہلیہ کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اضافی آمدنی کے لئے کوشش کر رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ بری طرح مہنگائی سے متاثر ہو رہا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کے اثرات مقامی ٹی وی چینل ”دنیا‘‘ میں بزنس ایڈیٹر حارث ضمیر نے ڈی ڈبلیو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہنگائی کے سامنے اتنے بے بس کبھی نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں۔ انہوں بتایا کہ ان کی تنخواہ دو لاکھ پچاس ہزار روپے ہے۔ مگر یوٹیلٹی بلز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے، جسکی وجہ سے سفید پوش طبقہ تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔ حارث ضمیر نے بتایا کہ ان کا بجلی کا بل 28ہزار سے 40 ہزار ہوگیا ہے، جبکہ مہینے کا سودا سلف 52 ہزار روپے سے 62ہزار روپے پر پہنچ گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت وقت تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگا رہی ہے۔ آدھی سے زیادہ تنخواہ اشیا خورونوش اور گھر کے کرائے پر خرچ ہو جاتی ہے، جبکہ ادویات روزانہ کے اخراجات ہیں، تنخواہوں میں اضافے کے بجائے کٹوتی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے سبب اب گھریلو بجٹ میں 50 فیصد اضافہ تو ہو گیا ہے مگر آمدنی وہی ہے۔